ابھی ٹھہرو
میں خوابو ں کے سفر پر ہوں
مجھے تم نیند سے بیدار ہونے دو
ابھی سچ مت کہو مجھ سے
مجھے رسوائیوں کے ڈر ہمیشہ دکھ ہی دیتے ہیں
فقط اک ہجر کا موسم ہمیشہ راس آ تا ہے
کبھی دلشاد لمØ+ÙˆÚº سے چرا لوں میں خوشی Ú©Û’ پل
تو برسوں بیت جاتے ہیں مجھے آ با د ہو نے میں
کبھی انجان رستوں پر مری ا نکھیں چلیں تنہا
کبھی سا یہ مرا اپنی جگہ ہی چھوڑ جا تا ہے
اگر چہ وقت کے چہرے پہ سلو ٹ ڈل گئی ہو گی
مگر جذبو ں کی جو لا نی عر و ج ِ با م رہتی ہے
کہ جب پلکوں کی کھیتی بھی اگائے فصل اشکوں کی
مرا دیں ہجر کے قدموں پہ سر رکھ کر بلکتی ہیں
ذرا پو چھو مری خلوت سے یہ آ با د کیسے ہے ؟
ابھی بیتے مراسم یا د کی آ نکھو ں ٹھہرے ہیں
ابھی تو دھو پ بھی دیوا ر کے شانوں سے سر کی ہے
تعلق کے جز یرو ں پر سنہری شا م اتری ہے
ابھی ٹھہرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سرد جذبو ں کے پگھلنے تک
نئ خوا ہش Ú©ÛŒ سر Ø+د پر پرا Ù†Û’ چا ند ڈھلنے تک